Thinkers Thinking . .

Tuesday 5 April 2016

را اور پاکستان کا کردار


  ۲۴ مارچ ۲۰۱۶کو بلوچستان میں حساس اداروں اور سکیورٹی فورسز نے بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایجنٹ اور حاضر سروس افسر کل بھوشن یادیو کو گرفتار کرلیا ہے جس سے پاکستان کی سیاسی فضاء میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ کل بھوشن یادیو ایرانی پاسپورٹ اور ویزے پر بلوچستان کے چکر لگاتا رہا۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دو چار مہینے سے پاکستان کے قبضے میں تھا اور گرفتاری ایرانی صدر حسن روحانی کے دورۂ پاکستان سے دو روز پہلے ظاہر کی گئی بہرحال دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ کسی ملک کے حاضر سروس جاسوس کو گرفتار کیا گیا ہے جو بلاشبہ ہماری سکیورٹی فورسز اور انٹلیجنس اداروں کی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ بھارتی جاسوس کی گرفتاری دراصل ان تمام سازشوں کی ایک کڑی ہے جو بھارت قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی اسے مسلسل نقصان پہنچانے کیلئے کرتا آیا ہے اور اب پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے بے دریغ پیسہ اور اسلحہ استعمال کر رہا ہے اور اسی مقصد کیلئے اس نے را میں ایک علیحدہ ادارہ بنایا ہے۔

بھارتی جاسوس نے دورانِ تفتیش یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ وہ بلوچستان اور کراچی میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں ملوث تھا اور وہاں کے علیحدگی پسند نوجوانوں کو ہر قسم کی امداد اور اسلحہ فراہم کرتا تھا اور بم دھماکوں اور دہشت گردی پر اکساتا رہا۔ اسکا اصل ٹارگٹ بلوچستان اور گوادر اور سی پیک کے منصوبوں کو سبوتاژ کرنا تھا جس کیلئے بھارت نے ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کو ترقی دینے کا کام شروع کردیا تھا تاکہ گوادر کی اہمیت کو کم کیا جاسکے۔ دراصل بھارت بحیرہ عرب اور خلیج فارس میں سپر پاور بننا چاہتا ہے جس کیلئے وہ کراچی اور بلوچستان کو الگ کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے اسی مقصد کیلئے اسے خطے میں چین کی موجودگی اور پاک چین دوستی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔

پاکستان کو اس معاملے کو بہت سنجیدگی سی لینا چاہیئے اور عالمی سطح پر اس کیس کو مضبوط موقف کے ساتھ پیش کرنا چاہیئے کیونکہ پاکستان کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیچھے بھارت ملوث ہے اور اسکے ثبوت بھی مختلف ممالک کو دیئے گئے اور اب بھارتی جاسوس کی گرفتاری سے پاکستانی موقف کی تصدیق ہوگئی ہے اور پاکستان کو بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لانے کا ایک بھرپور موقع ملا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود بھارت اپنی میں نہ ما نوں کی پالیسی پر اب بھی قائم ہے ۔ حکومت کو چاہیئے کہ اس بار کسی دباؤ میں آئے بغیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپنے ذاتی تعلقات کو ایک طرف رکھ کے ملک کے مفاد میں بہتر فیصلہ لے اور یہ نہ ہو کہ ریمنڈ ڈیوس کی طرح اس جاسوس کو بھی خاموشی کے ساتھ بھارت کے حوالے کردیا جائے۔

No comments:

Post a Comment