Thinkers Thinking . .

Tuesday 25 July 2017

میڈیا اور اخلاقی زمہ داری

https://youtu.be/mZHz9_f4LDM


میڈیا اور اخلاقی زمہ داری
جوں جوں پاکستانی میڈیا ترقی کی جانب گامزن ہوتا ہے وہیں جدت پسندی اور ریٹنگ کے نام پے اپنی اصل شناخت سے ہٹتا نظر آتا ہے۔ آج پاکستان میں میڈیا ماضی کی نسبت آزاد اور خودمختار ہے اور عوام تک اپنی آواز زیادہ موئثر انداز میں پہنچایا کرتا ہے۔ لیکن اس آزادی اور خود مختاری کا میڈیا اور متعلقہ اداروں نے اپنی مرضی کے مطالب اخذ کرنا شروع کردیتے ہیں اگر بات کی جائے الیکٹرونک میڈیا کی تو وہاں بھی یہی صورتحال نظر آتی ہے۔ مختلف چینلیز پر نشر ہونے والے شوز اور دیگر پروگرام کا جائیزہ لیا جائے تو ایسی بہت سی اخلاق و سماجی قدریں پامال ہوں نظر آتی ہیں جن پر دیھان  نہیں دیا جاتا ہے۔ اور ایسی چیزوں کو کبھی ریٹنگ کے نام پر تو کبھی چیک اینڈ بیلینس کی کمی یا کسی کی غلطی کو باعث نشر کردیا جاتا ہے۔
زیرے نظر ویڈیو میں بھی ایسے ہی ٹاک شو میں ہونے والوں جھگڑوں کا مجموعہ پیش کیا گیا ہے جسمیں مختلف معروف اور معتبر نظر آنے والے سیاستدانوں کی جانب سے غیر اخلاقی اور غیر مزہب گفتگو کا اظہار کیا گیا ہے جو کسی بھی طرح سے ہماری اقدار اور میڈیا قوانین سے میل نہیں کھاتا۔ یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ آجکل ان لڑائی جھگڑوں کو ریٹنگ کے نام پر اور بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے جوکہ ایک غلط ٹرینڈ اور اصولوں کے منافی بات ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر اس طرح کی گفتگو اور نازیبا زبان  کا استعمال اور دوسروں پر الزام تراشی جہاں نہ صرف عدم برداشت کو فروغ دینی ہو وہیں پہ اخلاقی طور پر بھی ایک قطعی ناموزوں عمل ہے۔

 میڈیا اداروں کی بھی یہ زمہداری ہے کہ وہ اپنی زمہداری کو محسوس کرتے ہوئے سلجھے ہوئے سیاستدانوں کو اپنے شو میں مدعو کریں اور ایسی چیزوں کو نشر ہونے کا موقع نا ملے۔ میڈیا کا کام جہاں لوگوں کو آگاہ کرنے کا ہے وہیں ایسے غیر مناسب اور غیر موزوں مواد کو روکنا اور قوانین پر عمل پیرا ہونا بھی لازمی ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کی بھی زمہداری ہے کہ وہ اپنا موقف مہزب انداز میں پیش نا کریں اور دوسروں کے بارے میں برداشت کا مظاہرہ کریں۔ 

Monday 24 July 2017

بھارتی فلمیں اور اسکے پاکستان میں اثرات

https://youtu.be/46kTKQ0C2Ek?list=PL9oJVyhgXIKKLuVb7XmY-iNX7HDivYnhY

بھارتی فلمیں اور اسکے پاکستان میں اثرات

میڈیا ایتھکس جہاں اس الفاظ کا نام آتا ہے وہاں ہم کئی باتوں کو بھی سامنے لاتے ہیں میڈیا کا 
کام لوگوں تک رائے پہچانا ، معلومات کو دوسروں تک فراہم کرنا ہے جو باتیں ہمیں روزانہ نا پتا ہوں تو وہ باتیں سامنے لاتا ہے جس میں معلومات کے ساتھ ساتھ مزاح بھی شامل ہوتا ہے اور معاشرے کی کارکردگی کا پہلو بھی کہیں نہ کہیں نظر آتا ہے۔ اگر میڈیا سے ہمیں معلومات حاصل ہوتی ہے تو اس سے نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔ جو آج کل فلمیں دیکھائی جاتی ہیں اسکا اثر ہمیں آج کل کے بچوں میں دیکھائی دیتا ہے۔ جس طرح انڈیا کی مووی ریلیس ہوئی جس میں فلم کے ہیروہیروئن   نے ایک دوسرے کی جان لے لی اسی طرح اس کا اثر ہمیں دیکھائی بھی دیتا ہے۔۔ حالیہ میں واقعہ پیش آیا جس میں دو اسکول کے طلبعلم جن کی عمریں 14 سے 15 سال ہوگی اپنے آپ کو ختم کردیا اورجو خط ملا اس میں انہوں نے جو باتیں لکھی اس میں الفاظوں کا جو استعمال  کیا جس میں ہندی الفاظ شامل تھے جو کہ ہمیں انڈیا کی مووی میں سنائی دیتے ہیں۔ ایسی فلم یا ڈراے جن میں غلط پیغام مل رہا ہو اسے زیادہ غور سے سنا اور دیکھا جاتا ہے کیونکہ انسان غلط کی طرف زیادہ جلدی بھاگتا ہے اور یہی چیز ہمیں دیکھائی بھی دی۔ ایسی فلم اور ڈرامے چاہے انڈیا میں ہوں یا پاکستان میں ان کو اس طرح نا دیکھایا جائے جس میں ایسے پیغام مل رہا ہو جس میں کسی کی جان ختم ہو۔ کیونکہ جب معاشرے میں یہ چیزیں دیکھائی جاتی ہیں تو معاشرے کے لوگ اسے اپنی زندگی میں شامل کرلیتے ہیں جس سے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کی زندگی سنور جائے گی جب کہ اس سے آگے کی نسلیں بھی لپیٹ میں آرہی ہیں۔ ہمیں میڈیا کے ذریعے اچھی تعلیم اور معلومات کو فراہم کرنا ہے جس سے ہمیں آگے آنے والے سالوں میں ترقی مل سکے اور ایسے واقعات نا ہوں۔۔۔ 

Sunday 23 July 2017

Imran-Reham divorce

Privacy of celebrities is a contested concept everywhere in the world. Tabloids and entertainment news (read: gossip) websites are reported to be raking in huge revenues while news providers who want to produce stories without added spice are struggling to break even. This question of protection of privacy is also a litmus test for how ethical the media is.
It should come as no surprise to anyone that the Pakistani media gave in to the temptation when PTI Chairman Imran Khan and journalist Reham Khan parted ways.This type of coverage raises many uncomfortable questions for those of us working in the media vis-à-vis ethical reporting and journalism.

Wednesday 13 April 2016

مارننگ شوز۔۔ بھلائی یا برائی ؟

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مستقل انگنت مسائل سے دوچار ہے ۔ بڑھتے جرائم اور دہشتگردوں کی سرگرمیوں نے لوگوں کی زندگیوں میں بے سکونی پیدا کردی ہے ۔ ایسی صورتحال میں مارننگ شوز خواتین کے لئے ایک تفریح کا باعث بن چکا ہے تو ساتھ ہی یہ مارننگ شوز خواتین کے انداز و اطورا ر کو بدل بھی رہے ہیں اب ان پروگرامات کا مقصد نت نئے ملبوسات اور جیولری کی نمائش ہی رہ گیا اور لباس بھی ایسے جنکا ہماری تہذیب و تمدن سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں ۔ ان شوز میں خواتین کو شو پیس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جس سے بے حیائی انتہاء کو پہنچ رہی ہے۔
خواتین کے لئے مارننگ شوزاب ایک ماڈل رول بن چکے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں خواتین ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے مارنگ شوز کے لئے منتظر ہوتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب صبح کی ابتداء ﷲ کے نام سے ہوتی تھی لیکن ان شوز کا جنون اتنا بڑھ گیا ہے کہ خواتین باقاعدہ سارے کام چھوڑ کر بڑے شوق سے اپنا قیمتی وقت سرف کرتی ہیں اور عموما یہ گھریلو خواتین ہی ہوتی ہیں۔
آج کل یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان مارننگ شوز کی وجہ سے خواتین بہت حد تک برانڈکونشیئس ہوگئی ہیں اور اپنی ضروریات کو ایک طرف رکھ کر برانڈز کے چکر میں پڑگئی ہیں اور اسی وجہ سے نمود نمائش بڑھ گئی ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں مہنگے سے مہنگے کپڑے خریدنے پر آمادہ نظر آتا ہے۔
ان تمام باتوں سے قطع نظر مارننگ شوز سے ہمیں بہت سی اچھی اور کام کی باتیں بھی گھر بیٹھے سیکھنے کو ملتی ہیں اور لوگ گھر بیٹھے فائدہ بھی اٹھا رہے ہیں ۔پیمرا کو چاہیے کہ تمام چینلز کو پابند کرے کہ وہ اپنے پروگرامات میں نئے ٹیلنٹ کو سامنے لائیں اور کارآمد چیزیں بتائیں جس سے معاشرہ بلندی کی طرف جائے اور انتشارو بگاڑ کا سبب بننے والے پروگرامات پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ دوسری جانب بحیثیت فرد ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنا قیمتی وقت برباد کرنے کے بجائے مثبت کاموں میں صرف کریں تاکہ ہمارا ملک بھی ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا ہوسکے۔

فری رائیٹنگ


میرا نام یسریٰ ہے۔ یسریٰ کے معنی خوشحالی کے ہیں خوشحال تو زندگی بھی ہوتی ہے۔زندگی میں تو غم بھی ہوتے ہیں غم تو ہر کسی کی زندگی میں ہوتے ہیں زندگی مین تو مشکلات بھی آتی ہیں مشکلات سے انسان سیکھتا ہے سیکھتا تو بچہ بھی ہے بچے تو پیا رے ہوتے ہیں پیارے تو پھول بھی ہوتے ہیں پھولوں کے کئی رنگ ہوتے ہیں رنگ تو تتلی کے بھی ہوتے ہیں تتلی تو آسمان پہ ہوتی ہے آسمان پہ تو تارے بھی ہوتے ہیں تارے تو رات میں چمکتے ہیں۔ رات میں تو چاند بھی چمکتا ہے چاند تو سفید ہوتا ہے سفید تو بلی بھی ہوتی ہے بلی تو دودھ پیتی ہے دودھ تو سب پیتے ہیں پیتے تو پانی بھی ہیں پانی تو سمندر میں ہوتا ہے سمندر میں تو مچھلیاں بھی ہوتی ہیں مچھلی جل کی رانی ہوتی ہے رانی تو راج کرتی ہے راج تو شیر بھی کرتا ہے شیر تو جنگل میں ہوتا ہے جنگل میں تو اور جانور بھی ہوتے ہیں جانور تو پنجرے میں ہوتے ہیں پنجرے میں تو پرندے بھی ہوتے ہیں پرندے تو درختوں پر بھی ہوتے ہیں ۔ درختوں پہ تو پتے بھی ہوتے ہیں ۔پتوں سے تو ہریالی بھی ہوتی ہے ہریالی تو باغ میں بھی ہوتی ہے باغ میں تو پھل بھی ہوتے ہیں پھل تو میٹھے ہوتے ہیں میٹھی تو مٹھائی بھی ہوتی ہے مٹھائی تو حلوائی کے پاس بھی ہوتی ہیں حلوائی کے پاس تو حلوہ بھی ہوتا ہے حلوہ تو سردیوں میں کھایا جاتا ہے سردیوں میں تو بھت ٹھنڈ ہوتی ہے ٹھنڈ میں تو ہم گرم کپڑے پہنتے ہیں گرم تو آگ بھی ہوتی ہے آگ تو جلادیتی ہے جلتا تو دل بھی ہے دل تو سب کے پاس ہوتا ہے دل سے تو پیار بھی ہوتا ہے پیار تو ہم امی سے کرتے ہیں امی تو اچھی ہوتی ہے اچھے تو بابا بھی ہوتے ہیں بابا تو چیزیں لاتے ہیں چیزیں تو ہم روز کھاتے ہیں روز تو ہم دوستوں سے بھی ملتے ہیں دوست تو بہت اچھے ہوتے ہیں جو ہمارے کام بھی آتے ہیں کام تو ہم روز کرتے ہیں کام سے یاد آیا آج تو بلاگ بھی لکھنا ہے سو باقی باتیں بعد میں پہلے کام تب تک کیلئے ۔۔۔۔اللہ حافظ۔

Tuesday 12 April 2016

کراچی ۔۔ ر وشنیوں کا شہر؟



ؑ عروس البلاد کراچی کبھی روشنوں کا شہر بھی کہلاتا تھا۔سمندر کے کنارے واقع یہ عظیم شہر اپنی خوبصورتی کے حوالے سے پوری دنیا میں اپنی مثال آپ تھا جسکی راتیں جاگتی اور زندگی رواں دواں نظر آتی تھی۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ناطے کراچی ہمیشہ سے ایک معاشی حب رہا ہے اور پورے ملک سے لوگ روزگار کی تلاش میں اس شہر کا رخ کرتے رہے ہیں اور یہ شہر امیرو غریب اور ہر طبقۂ فکر کے لوگوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لیتا ہے ۔ لیکن آج یہی کراچی حکمرانوں کی نااہلی اور عوام کی بے حسی کا منی بولتا نمونہ پیش کرتا ہے۔ گندگی اور غلاظت، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور دہشت گردی اور بھتہ خوری کے واقعات کراچی کی پہچان بن کر رہ گئے ہیں اور اسکی رونقیں ماند پڑتی جارہی ہیں۔

اس شہر کی بد نصیبی یہ ہے کہ اسکی قسمت کو سنوارنے کیلئے یوں تو ہمارے حکمران بہت دعوے کرتے نظر آتے ہیں لیکن اسکا عملی مظاہرہ ہمیں کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ شہر جو پورے ملک کو ۷۰ فیصد ریونیودیتا ہے اسکی ترقی کیلئے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا جاتا اور کبھی سر کلر ریلوے تو کبھی گرین لائن بس جیسے پراجیکٹ سے عوام کو لالی پاپ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو صرف کاغذوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اگر اس شہر کے مسائل پر نظر ڈالی جائے تو وہ بھی ہمیں اس شہر کی طرح لامحدود نظر آتے ہیں۔ کسی زمانے میں کراچی صفائی ستھرائی میں اپنی مثال آپ تھا اور اسکی سڑکیں روز دھلا کرتی تھیں آج یہی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔دھواں، شور اور بے ہنگم ٹریفک نے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور وہ افراتفری کا شکار ہوگئے ہیں۔ دو کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں بھی لوگ صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات کو ترستے ہیں اور آئے روز احتجاج کرتے ہیں لیکن حکمرانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کے واقعات نے گو کہ کراچی کے کاروبار کو کسی حد تک متاثر کیا تھا لیکن کراچی آپریشن کے بعد ان واقعات میں بہت حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔

ان تمام مسائل کے باوجود اس لاوارث شہر کا کوئی پر سانِ حال نظر نہیں آتا جو ان مسائل کو حل کرے ۔ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اس شہر کی ترقی کیلئے زبانی دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات کریں ۔ اسی طرح عوام کو بھی چاہیئے کہ وہ حکمرانوں سے آس لگانے کے بجائے خود آگے بڑ ھیں اور اس شہرکو اپنا سمجھتے ہوئے اسکی تعمیرو ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور اسے روشنیوں کا شہر بنائے رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں کیونکہ کراچی ترقی کریگاتو پاکستان ترقی کریگا اسلیئے ضروری ہے کہ سب مل کر اس شہر کو بنائیں تا کہ اس کا نام ترقی یافتہ شہروں کی صف میں شامل ہوسکے ۔

Monday 11 April 2016

FREE WRITING


I am a girl and my name is rumsha khan. My name meaning is beautiful and pretty. Anyone can be beautiful but I am most beautiful, being beautiful is the attraction for others. Attraction is the force that brings others towards you. Attention is necessary for every girl how to look like. Because every girl wants to look pretty. Our studies also need serious attention but most of them didn’t take it serious like me. I am like a person who did not take thing serious; mostly things are joy for me. Things which mostly like by  girls that depends on their ages ,like grown up girls attracts towards barbies and pink barbie houses… under 25 likes to go for shopping and hangouts. shopping is the source of joy and fun for girls. Fun can be done with friends, family and others. Friends are very naughty when you need them they are with you but in class friends are the one who use to make fun for you infront of your teachers.