Thinkers Thinking . .

Tuesday 16 February 2016

حکومت اور نجکاری

         ایک وقت تھا جب پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائر لائنز میں کیا جاتا تھا اور اسکی بہترین اور لاجواب خدمات کی بدولت دنیا بھر میں موجود پاکستانی پی آئی اے سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے لیکن امارات ائرلا ئن ا ور سنگاپور ائرلائن کو بنانے والی پی آئی اے آج خود تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔ضرورت سے زائد ملازمین ،لوٹ کھسوٹ اور اقربا ء پروری ادارے کی تباہی کی اہم وجوہات ہیں۔ پی آ ئی اے کے پاس اس وقت ۳۸ جہازاور ۱۹ ہزار ملازمین ہیں جبکہ اسکی صرف ۶۷ منازل ہیں اور اسکے منافع بخش روٹس دوسری ائر لائنز کو بیچے جارہے ہیں۔پی آئی اے کا خسارہ بڑھ کر ۳۰۰ ارب تک جا پہنچا ہے جبکہ حکومت اسے بحران سے نکالنے کے بجائے اسکی نجکاری کے درپے ہے اور اسکے ۲۶ فیصدشئیرز فروخت کرنے کیلئے اسٹریٹجک پارٹنر کی تلاش میں ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو آخر پی آئی اے کی نجکاری کی اس قدر جلدی کیوں ہے؟ اس کا آسان جواب یہی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے اس شرط کے ساتھ قرضہ لیا ہے کہ جولائی تک پی آئی اے اور اسٹیل مل کا سودا کردیا جائے گااور اسکا مالی بحران ختم کیاجائے گا۔اس فیصلے کے خلاف پی آئی اے کے ملازمین نے ایک تحریک چلائی جسمیں قیمتی جانوں کے علاوہ ادارے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور پوری دنیا میں رسوائی الگ ہوئی جبکہ وزیراعظم نے ایک نئی ائرلائن بنانے کا اعلان بھی کردیا۔

     لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ن۔لیگ اسے بیچ نہیں رہی خرید رہی ہے کچھ مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حکومت کی نظریں پی آئی اے کے اربوں ڈالر مالیت کے اثاثہ جات پر ہے۔لیکن کیا نجکاری ہی ہر مسئلے کا حل ہے؟اور اگر ایک یہی حل ہے تو کیا یہ نجکاری شفاف ہوگی جسکی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔پی ٹی سی ایل،حبیب بینک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ان منافع بخش اداروں کو من پسند لوگوں کے حوالے کردیا گیا۔

حکومت کو چاہیئے کہ وہ اداروں میں درست اقدامات کر کے انہیں منافع بخش بنائے اور عوام مخالف اقدامات سے دور رہے۔ اور غریب لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے کم از کم حکومت کو اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا جن کی وجہ سے آج ایک قومی ادارہ اس تباہ حالی کو جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ وہ پی آئی اے کے مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے عوام کو درپیش دیگر مسائل کے حل پر زور دیں۔

No comments:

Post a Comment