Thinkers Thinking . .

Monday 29 February 2016

REVIVAL OF FILM INDUSTRY IN PAKISTAN

In 1970, and 1980 Pakistan , flim industry had a golden time. They produced out class movies like Azmaish, Daman, zameer, zeenat, chot nawab & Baji e.t.c. That time people thought golden period of industry.
            But after that our flim industry face long lasting decline. Their are many reasons if struggling period like lack of concentration, actress finances and many more.
            But now here comes revival in our flim industry. Many world class movies are produce, which not only admirable in Pakistan but over sea also. Now we saw a more new talent and movies like, Bol, Bin royae, karachi se Lahore and Ye Jawani phir Nai ani e.t.c.

Friday 19 February 2016

Dewar-e-Meherbani


 It started some time ago, I was wandering on face book ,a post caught my eyes and so of my other people. According to the post an anonymous in Iran put a few hookers and hanger on a wall and wrote down on it "If you don't need it put it for some who do".According to official figures there are around 15,000 are homeless in Iran. Pakistan is somehow have the same condition, so on valentines day when Pakistan's streets and road are filled with red roses and balloons, everyone was busy in pleasing their love one, Making the day more and more controversial as it use to be. Some students of NUTS and Air University show another kind of love to homeless and needy people, by creating their own wall of kindness in twin cities while some of them use their creativity by visiting old houses, orphan houses and hospitals. This idea very soon got the attention of Pakistani media and social media and spread very soon through the big cities of Pakistan like Karachi, Lahore and Peshawar.People put their warm clothes boots or any other stuff they want to donate and who ever need it would take it without feeling ashamed or hesitation.It is a really good sign when our government is busy in foreign tours and constructing roads,youth chose to help themselves.Though Pakistan is considered as one of the most charitable countries across the globe but there are still some people who don't ask anyone one for their need, this idea is going to help them alot.We should also include other stuff in these walls like food, water and medicines because still many people in our country need that. By the future we need more people like Abdul Sattar Edhi, Ramzan Chima, Ansar Burney and more ideas like Wall of Kindness and Fix It by Alamgir Khan.These people set up an example that liking ,sharing and arguging on social media is not all we got to do. If we want our country to progress we should take steps, not very huge one but small steps that we can do.

Wednesday 17 February 2016

گلوبل لیوایبل رینکنگ 2015


گلوبل لیوایبل رینکنگ 2015 کی جانب سے دنیا بھر کے ایک سو چالیس ممالک کے حوالے سے ہر سال ایک سروے کیا جاتا ہے جس میں مختلف زاویوں کو مد نظر رکھتے ہوئے افرادسے رائے لی جاتی ہے کہ اس دنیا کا سب سے زیادہ رہنے والا شہر کونسا ہے۔

جن زاویوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے ان میں حفاظت ، معیاری تعلیم ، صاف ماحول ، منظم انفرا سٹکچر، اور دیگر بنیادی ڈھانچے شامل ہیں۔
ایک سوچالیس شہروں میں کئے گئے سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دینا میں ہونے والے فسادات اور جنگوں نے بہت سے شہروں کو تقریبا تنذلی کی جانب دھکیلا ہے۔


شام ، لیبیا اور یوکرین ان ممالک میں شامل ہیں جہاں جنگوں نے اور فرانس و طیونس ان ممالک میں شامل ہیں جن کے شہر وں میں دہشت گردوں کی پکڑ دھکڑ نے عوام کو ان ممالک سے بدظن کیا اور وہ اس سروے کے مطابق اپنی پرانی درجہ بندی میں تنذلی کا شکار ہوئے۔
اس سروے میں عمومی طور پر وہ شہر شامل ہوتے ہیں جن میں آبادی کا تناسب کم ہوتا ہے اور شرح آمدنی زیادہ، جیسے لندن اور نیویارک ا ن شہروں میں شامل ہیں جہاں گھومنے کے لئے تو لوگ تیار ہیں مگر رہائش اختیار کرنے کے لئے بالکل بھی تیار نہیں۔


گزشتہ پانچ سالوں سے اس سروے کے مطابق آسٹریلیا کا شہر میلبورن درجہ بندی میں اول آرہا ہے اور پہلے دس نمبروں پر آسٹریلیا کے ہی مزید تین شہروں نے اپنا قبضہ جمائے رکھا ہے۔جن میں سڈنی، ایڈیلیڈ اور پرتھ شامل ہیں۔تعجب کی بات یہ ہے کہ شدید سرد موسم کے باوجود کینڈا کے تین شہروینکوور،ٹورنٹو اور کیلگری، تیسری ، چوتھی اور پانچویں پوزیشن پر برجمان ہیں۔آسٹریا کا شہر ویا نا دوسرے نمبر پر موجود ہے۔ میلبورن کی خاص بات وہاں آسانی سے مل جانی والی رہائش کی سہولیات اور ٹرانسپورٹ کا موثر انتظام ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا اور دنیا میں روشنیوں کا شہر کہلانے والا کراچی اوردارلحکومت اسلام آباد بھی ان ایک سو چالیس شہروں کی فہرست میں اپنی جگہ قائم کئے ہوئے ہیں۔

ﷲ سے دعا ہے کہ مملکت پاکستان میں امن قائم ہو اور ہم ایک بار پھر، دنیا میں، اپنے شہرو ں کی کھوئی ہوئی شناخت حاصل کر سکیں۔ آمین

ایک اور حملہ

ایک اور حملہ
۱۶ دسمبر ۲۰۱۴ء ؁ ایک بہت بڑا سانحہ جس نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس میں کئ معصوم طلبہ جن کی عمریں ۸سال سے لے کر ۱۸ سال تک تھیں ان کی جانیں اس سانحہ میں چلی گء۔ کون تھے وہ لوگ جو خون کی ہولی کھیل گئ ان کی جانیں چھین کے لے گء۔ ابھی تو ان بچوں کو آگے بڑھنا تھا مگران کی زندگیوں کو چھینا گیا۔ وہ ماں باپ کا رونا جن کے گھروں سے ایک سے زائد بچوں کی جانیں چلی گئیں۔ ہمارے ملک سے دہشت گردی خاتم کرنی تھی مگر اس حادثے میں ۱۳۲ طلبہ کی جانیں ضائع ہوگئیں ۔اس حادثے کے بعدنیپ کا اعلان ہواتاکہ ملک سے دہشت گردی کو خاتم کیا جائے۔ اس پلین میں ۲۰پوائنٹس پیش کیئے کچھ پر عمل ہوا مگر کچھ ابھی تک ایسی ہیں جن پر عمل نہیں ہوا۔اس حادثے سے طلبہ کے دلوں میں ایک خوف تھا مگر طلبہ کے اندر آگے بڑھنے کی لگن کم نہ ہوئی ۔ حکومت کو چاہیے تھا کے سیکیورٹی پر کام کیا جائے مگر پھر ایک اور حادثہ پیش آیا۔ ۲۰جنوری ۲۰۱۶ ؁ء ایک اور سنگین واقعہ جو کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی میں میں پیش آیا۔ اس حادثے میں ۲۲طلبہ کی جانیں چلی گئیں اور کئی زخمی بھی ہوئے جس طریقی سے پشاور میں بچوں پر حملہ ہوا ویسی انہیں بھی بے دردی سے مارا گیا ۔
اس ملک میں کیا ہورہا ہے جو کئی سال پہلے امن کا گہوارہ تھا اب خون کی جنگ لڑی جارہی ہے۔کون ہے اس ملک میں امن کو ختم کررہاہے۔ حکومت کو چاہیے تھا کے اے پی ایس کے سانحہ کے بعد تعالیمی ادارو ں میں سخت سیکیوریٹی کے انتظامات سنبھالے جاتے ۔ان دونوں حادثوں کے بعدچند اسکول اور یونیورسٹی کو کچھ دنوں کے لیے بند کرایا گیا اور سیکیور ٹی انتظامات سنبھالے گئے۔ پہلے مسجدوں کو نشانہ بنایا گیا دھماکے کیے گئے اور اب اسکول اور یونیورسٹی کو نشانہ بنایا جارہا ہے ۔ان کو روکنے والا کوئی نہیں جو بے دردی سے لوگوں کو اور طلبہ کو ختم کررہے ہیں ہر دن کوئی نہ کوئی سپردِخاک ہورہا ہے ۔اس ملک میں ہر کوئی اپنی مفاد کی جنگ لڑی جارہی ہے۔اب صرف لوگوں کی زبان پے ایک بات ہوتی ہے کہ آج کی کیا خبر ہے کتنے لوگ ہلاک ہوئے اور کتنے زخمی ہوئے اور اہم بات وہی دب کے رہ جاتی ہے پہلے جو افسوس کئی دنوں تک رہتا تھا اب کچھ گھنٹوں تک مہدود ہوگیا ہے ۔
مسئلہ دہشت گردی کو ختم کرنا تھا جو کہ اب تک ختم نہیں ہورہاحکومت کو چاہیے ایسے پلینز بنائے جائیں نہ کہ اپنے سیاسی مسئلوں میں الجھ کر عوام کو بھلادیا جائے ۔بلکہ ایسے سیکیوریٹی انتظامات عمل میں لائے جائیں جس سے آنے والے دنوں میں ایسے حادثات نہ ہونے پائیں جس کی وجہ سے کئی لوگوں کی جانیں ضائع ہونے سے بچ جائیں۔چند اسکولز میں سیکیورٹی انتظامات نہ لائیں جائیں بلکہ سب تعالیمی اداروں میں یہ سیکیورٹی انتظامات لائیں جن پر پہلے عمل نہیں کیا گیا ۔ خدا ہمارے ملک سے دہشت گردی کو ختم کرے اور امن و سکون قائم ہو ،خدا ہمارے ملک کی حفاظت کرے۔ آمین ۔

Tuesday 16 February 2016

حکومت اور نجکاری

         ایک وقت تھا جب پی آئی اے کا شمار دنیا کی بہترین ائر لائنز میں کیا جاتا تھا اور اسکی بہترین اور لاجواب خدمات کی بدولت دنیا بھر میں موجود پاکستانی پی آئی اے سے سفر کرنے کو ترجیح دیتے تھے لیکن امارات ائرلا ئن ا ور سنگاپور ائرلائن کو بنانے والی پی آئی اے آج خود تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے اور مسلسل خسارے میں جارہی ہے۔ضرورت سے زائد ملازمین ،لوٹ کھسوٹ اور اقربا ء پروری ادارے کی تباہی کی اہم وجوہات ہیں۔ پی آ ئی اے کے پاس اس وقت ۳۸ جہازاور ۱۹ ہزار ملازمین ہیں جبکہ اسکی صرف ۶۷ منازل ہیں اور اسکے منافع بخش روٹس دوسری ائر لائنز کو بیچے جارہے ہیں۔پی آئی اے کا خسارہ بڑھ کر ۳۰۰ ارب تک جا پہنچا ہے جبکہ حکومت اسے بحران سے نکالنے کے بجائے اسکی نجکاری کے درپے ہے اور اسکے ۲۶ فیصدشئیرز فروخت کرنے کیلئے اسٹریٹجک پارٹنر کی تلاش میں ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو آخر پی آئی اے کی نجکاری کی اس قدر جلدی کیوں ہے؟ اس کا آسان جواب یہی ہے کہ ہمارے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف سے اس شرط کے ساتھ قرضہ لیا ہے کہ جولائی تک پی آئی اے اور اسٹیل مل کا سودا کردیا جائے گااور اسکا مالی بحران ختم کیاجائے گا۔اس فیصلے کے خلاف پی آئی اے کے ملازمین نے ایک تحریک چلائی جسمیں قیمتی جانوں کے علاوہ ادارے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا اور پوری دنیا میں رسوائی الگ ہوئی جبکہ وزیراعظم نے ایک نئی ائرلائن بنانے کا اعلان بھی کردیا۔

     لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ ن۔لیگ اسے بیچ نہیں رہی خرید رہی ہے کچھ مخالفین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ حکومت کی نظریں پی آئی اے کے اربوں ڈالر مالیت کے اثاثہ جات پر ہے۔لیکن کیا نجکاری ہی ہر مسئلے کا حل ہے؟اور اگر ایک یہی حل ہے تو کیا یہ نجکاری شفاف ہوگی جسکی ماضی میں ہمیں کوئی مثال نہیں ملتی۔پی ٹی سی ایل،حبیب بینک کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح ان منافع بخش اداروں کو من پسند لوگوں کے حوالے کردیا گیا۔

حکومت کو چاہیئے کہ وہ اداروں میں درست اقدامات کر کے انہیں منافع بخش بنائے اور عوام مخالف اقدامات سے دور رہے۔ اور غریب لوگوں پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے کم از کم حکومت کو اپنی صفوں میں موجود ایسے عناصر پر ہاتھ ڈالنا ہوگا جن کی وجہ سے آج ایک قومی ادارہ اس تباہ حالی کو جا پہنچا ہے۔ ان حالات میں سیاسی جماعتوں کو بھی چاہیئے کہ وہ پی آئی اے کے مسئلے پر سیاست کرنے کے بجائے عوام کو درپیش دیگر مسائل کے حل پر زور دیں۔

Monday 15 February 2016

The journey to nationalization to privatization

In the late 1990's, the Government of Pakistan considered selling the airline to the private sector due to the persistent losses suffered by the airline. The government announced its privatization plans but they were never implemented. Several steps towards outsourcing of non-core business have been initiated. Catering units (starting with Karachi Flight Kitchen), ground handling (starting with ramp services) and engineering, are to be gradually carved out of the airline and operated as independent companies. During 1997, Pakistan called in a team from International Finance (IFC), the consulting arm of the World Bank, to advise on restructuring and privatization of Pakistan International Airlines (PIA). However,The government has had many plans for the privatization of the State owned airline. However, no reasonable agreement or solution has been found to this day. Since 2004,PIA's performance is very unsatisfied .On 18 February 2009 the carrier was dropped from the privatization list.The financial performance form 2011 continues to be a challenge with an after tax loss of PKR 26.767 billion.
       ''The main reason behind the privitization of PIA is the government took loan from IMF 2 years ago.with the promise to privitized the PIA.As government say that they will gave their loan back after few months or 6 month,then the process of privitization will start.now the present installment of the loan will be conditional with the payment will be realized with the privitizaion of PIA.
     As minister ishaq daar said,PIA have 38 aeroplanes and the people who are employeed in PIA are about 19000,if we compare it from a turkish airline they have 296 planes and people who work thier are about 18000 only...PIA airline work in 67 countries and on the other hand the turkish airline served 282 places in the world.PIA is in debt about 23 crore and 80 lac in US dollar ...All the system is currupte,there is no one who check on these things.People only compare the situations but no one sort out the solution,after privitization of these institude like HBL,UBL,Allied bank,etc now the turn of Pakistan steel milles and Pakistan International Airline.wheather it will be beneficial to pakistan to privitize it or not.Now it is delayed for six month more,god knows better what will be the future of PIA.